مكة المكرّمة دعاء – 13 رمضان 1439
فضيلة الشيخ عبد الرحمن بن عبد العزيز السديس
فضيلة الشيخ عبد الرحمن بن عبد العزيز السديس
مولانا محمد عرفان یس یم ندوی صاحب (وائیس آف بھٹكلیس)
سوال نمبر/ 0178
حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتوں کے روزوں کا کیا حکم ہے ؟ کیا یہ عورتیں روزہ چھوڑ سکتی ہیں ؟
جواب : حضرت انس رض فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے لیے روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی ہے (سنن ترمذی:751)
حدیث پاک سے پتہ چلاکہ حاملہ یا دودھ پلانے عورت کیلئے یہ اجازت ہے کہ وہ مشقت کے وقت روزہ چھوڑ دے. جس کی تفصیل یہ ہے، کہ
١- اگر روزہ رکھنے سے اسے اپنی ذات کو نقصان پہنچنے کا خوف ہو ، یااپنے ساتھ ساتھ بچہ اورحمل کوبھی تکلیف کا اندیشہ ہوتو اس صورت میں وہ روزہ ترک کرے گی اور بعد میں اس پر صرف اس روزے کا قضا کرنا لازم ہوگا.
٢- اگر روزہ رکھنے سے اپنے بچے کو کوئی تکلیف ہونے کا خدشہ ہو اور اپنی ذات کوکسی قسم کی تکلیف کا اندیشہ نہ ہوتو ان کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہوگی. اور بعد میں چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا کرے گی اور ہر روزے کے بدلے ایک مد اناج(جو آج کل کے حساب سے تقریباً 600 گرام چاول کے برابر ہے ) کا فدیہ ادا کرے گی. (البیان للعمراني 3/473-474) (حاشیۃ البیجوری1/446)
قال الإمام العمراني رحمه الله:
وإن خافت الحامل والمرضع على أنفسهما.. أفطرتا، وعليهما القضاء، دون الكفارة، كالمريض.
وإن خافتا على ولديهما.. أفطرتا، وعليهما القضاء، وفي الفدية ثلاثة أقوال:
أحدها – وهو الصحيح -: أن عليهما الكفارة لكل يوم مد من طعام،(١)
قال الإمام البيجوري رحمه الله:
(الحامل والمرضع ان خافتا على أنفسهما) اي ولو مع الحمل في الأولى والولد في الثانية(ضررا يلحقهما بالصوم كضرر المريض أفطرتا وجب عليهما القضاء وإن خافتا على أولادهما)اي اسقاط الولد في الحمل وقلة اللبن في المرضع أفطرتا ووجب عليهما القضاء للإفطار والكفارة أيضاً . والكفارة أن يخرج عن كل يوم مد (٢)
_____________
(١)البيان (٤٧٩/٣)
(٢)حاشية البيجوري (٤٤٦,٤٤٧/١)
Fiqhe Shafi Question No/0178
What is the ruling on fasting for a pregnant and breastfeeding lady?
Ans; Hazrat Anas R.A narrated that the Messenger of Allah(peace ans blessings of Allah be upon him) permitted the pregnant and breastfeeding woman to skip the fast.. (Sunan Tirmidhi 751)
From this hadeeth we come to know that it is permissible for a pregnant and breastfeeding woman to skip the fast in a state of critical conditions and the conditions are as follows;
1)If there is a fear of causing harm to self in a state of fasting or there is a chance of causing problem to the foetus then in this situation she may skip the fast and later making up this missed fast will be compulsory..
2)If there is fear of causing harm to the foetus and there isnt any fear of causing harm to oneself then she is permitted to skip the fast and later she may make up the fast and for each missed fast she may give one madd(approx 600grams of meal)as fidya..
سورة الحجر– آيت نمبر 22-23-24-25-26-27 (مولانا عبدالباری ندوی رحمہ اللہ)
مولانا عبدالباری ندوی رحمہ اللہ
عنوان : روزے کے اہم مسائل
فضيلة الشيخ عبدالله بن عبدالرحمن البعيجان
فضيلة الشيخ ياسر بن راشد الدوسري
مولانا محمد عرفان یس یم ندوی صاحب (وائیس آف بھٹكلیس)
سوال :نمبر/ 0329
عورتوں کے لئے گھروں میں فرض نمازکے لئے یاتراویح کے جماعت بنانادرست ہے یا نہیں؟
جواب: حضرت ام ورقہ بنت عبداللہ رض سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھرآکران کی زیارت کرتے تھے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے ایک مؤذن مقررکیا تھاجواذان دیتا تھااورآپ نے ام ورقہ رض کوحکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھروالوں کی امامت کرے (سنن ابی داؤد:592)
حضرت رائطہ الحنفیہ رض فرماتی ہیں کہ حضرت عائشہ رض نے ہماری امامت فرمائی اورفرض نماز کی جماعت میں عورتوں کے درمیان کھڑی رہی (سنن بیہقی:5355)
حضرت حجیرہ رض فرماتی ہیں کہ حضرت ام سلمہ رض نے عصرکی نماز میں ہماری امامت فرمائی اورہمارے درمیان کھڑی رہی (سنن بیہقی:5357)
ان احادیث کی روشنی میں عورتوں کے لیے گھرمیں جماعت بنانا درست اورجائز ہے.البتہ عورتوں کے حق جماعت بنانا مردوں کی طرح مستحب اورمؤکد نہیں ہے.
واضح رہے کہ عورتوں کی جماعت میں امام عورت کوپہلی صف کے درمیان کھڑا رہنا مستحب ہے اس طور پرکہ وہ معمولی مقدار میں اس طورپر آگے رہے کہ مقتدیوں سے ممتاز بھی ہوسکے اور صف سے مکمل طور پر خارج بھی نہ ہو .
نیز جہری نماز میں قرات بھی مردوں کی طرح جہرا نہیں پڑھے گی بلکہ دھیمی آواز میں قرات کرے گی تاکہ کسی اجنبی مرد کے کان میں اس کی آواز نہ پہنچے
أمّا الأُنْثى والخُنْثى فَيَجْهَرانِ حَيْثُ لا يَسْمَعُ أجْنَبِيٌّ، ويَكُونُ جَهْرُهُما دُونَ جَهْرِ الذَّكَرِ، فَإنْ كانَ يَسْمَعُهُما أجْنَبِيٌّ أسَرّا، فَإنْ جَهَرا لَمْ تَبْطُلْ صلاتهما.(١)
(وتَقِفُ إمامَتُهُنَّ) نَدْبًا (وسْطَهُنَّ) بِسُكُونِ السِّينِ لِثُبُوتِ ذَلِكَ عَنْ فِعْلِ عائِشَةَ وأُمِّ سَلَمَةَ – رَضِيَ اللَّهُ تَعالى عَنْهُما -. رَواهُ البَيْهَقِيُّ بِإسْنادٍ صَحِيحٍ.
أمّا إذا أمَّهُنَّ غَيْرُ المَرْأةِ مِن رَجُلٍ أوْ خُنْثى فَإنَّهُ يَتَقَدَّمُ عَلَيْهِنَّ. (٢)
🔰🔰 المراجع 🔰🔰
١ – مغني المحتاج 1/277
٢ – مغنی المحتاج 1/425
مولانا عبدالباری ندوی رحمہ اللہ
عنوان : روزے کے اہم مسائل